ماں بچوں کی تربیت کیسے کرے
آج کی نسل جنریشن گیپ کی قائل نہیں ماں باپ اپنے بچوں سے بے تکلفانہ اور دوستانہ مراسم رکھتے ہیں یہ بات ایک حد تک درست ہے مگر یہ بے تکلفی اتنی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھنے کو تکلف خیال کیا جائے۔ والدین اور بچوں کا رشتہ کتنا ہی قریبی اور دوستانہ روابط پر منحصر کیوں نہ ہو اس میں بے ادبی اور گستاخی کا پہلو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض مائیں چھوٹے بچوں کی بدتمیزیوں اور بے ادب لہجے کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتی ہیں کہ ابھی بچہ ہے بڑا ہو گا تو خود ہی سمجھ آ جائے گی۔
بچہ ڈھیل پا کر مزید سرکشی اور گستاخی پر اتر آتا ہے۔ مائیں انہیں ڈانٹنے ڈپٹنے کی بجائے لاڈ کرکے مزید سر پر چڑھا لیتی ہیں اور یہی عادتیں پختہ ہو کر ان کی شخصیت کی خامی بن جاتی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جن بچوں کی ہر غلط بات کو بھی صحیح سمجھا گیا ہو اسے صحیح یا غلط میں تمیز ہو گی بھی تو کیسے.... جسے بچپن سے ہی ضد کرکے رو پیٹ کر اپنی ہر جائز و ناجائز منوانے کی عادت پڑ جائے وہ بڑا ہو کر بھی اسی طریقے کو خود پر لاگو کئے رکھتا ہے.... جو بد تمیزی اور بے ادبی والا ماحول اسے بچپن میں میسر ہوتا ہے وہ بڑا ہو کر بھی اسی ”بے تکلفی“ پر مائل رہتا ہے۔ ماں باپ چاہے کسی بھی کلاس سے تعلق رکھتے ہوں ان بچے کے ان کی یکساں توجہ اور محبت کے طالب ہوتے ہیں۔ محل میں رہنے والا بچہ بھی ماحول اور کردار سے تربیت پاتا ہے۔
جھونپڑی میں رہنے والا بھی.... ماں باپ کی محبت اورشفقت کی طرح ان کی ”کلاس“ بھی تخصیص کی قائل نہیں مگر جدت پسند اور روشن خیال ماں باپ اس محبت کو بھی کلاس، اسٹیٹس کے پیمانوں سے ماپنے لگے ہیں ہائی کلاس کے والدین اپنے بچوں کی پرورش کھلے ڈھلے ماحول اور دوستانہ مراسم کے ساتھ کرتے ہیں۔
ان کی محبت ان کے لہجے، باتوں اور لاڈ پیار سے زیادہ پر تعیش زندگی اور بے تحاشہ عیش و عشرت سے منسوب ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش، ضرورت اور تمنا کا حاصل روپے پیسے کو سمجھتے ہیں ان کے پاس وقت بھی محدود ہوتا ہے۔
بزنس، گیٹ ٹو گیدرز، پارٹیاں اور کلب ان کے بچوں کی تربیت اور پرورش سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
بچے ان کی بے اعتنائی اور لا تعلقی سہہ کر بڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے جب ان کے کیرئر یا شادی وغیرہ کی بات آتی ہے تو وہ ہمیشہ کی طرح اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر والدین کے لیے اپنے بچوں کی شادی ایسا موضوع ہوتا ہے کہ یہاں آ کر انہیں سارے حقوق و فرائض یاد آ جاتے ہیں۔ یہاں آکر انہیں خبر ہوتی ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت میں کہاں کمی رہ گئی تھی۔ ہر بات اور ہر کام اپنے بچوں کی منشاء پر ڈال دینے والے بہت سے والدین اس موقع پر آ کر اپنی مرضی اور اختیار استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جو بچے شروع سے بغیر روک ٹوک کے آزادانہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ماں باپ اس موڑ پہ آ کر ان پر پابندیاں اور حدو دو قیود عائد کرنے لگیں تو اس کا نتیجہ کورٹ میرجز کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی نہیں آ ج کل تو اچھے اچھے گھرانوں کے بچے منشیات (ڈرگس) اور نشہ آور اشیاء کے عادی ہوتے ہیں۔ شراب و کباب تو خیر امراء اور روساء کے لیے ”اسٹیٹس سمبل“ بن چکا ہے تاہم شوقیہ اسمگلنگ، ڈاکہ زنی اور ریپ وغیرہ کے کیسز بھی امیر گھرانوں کے بچوں کے معمولات میں شامل ہو چکے ہیں۔
سونے کا نوالہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے بھی موبائل چھیننے اور اسٹریٹ کرائمز میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
ان کی راہ میں کوئی مجبوری حائل نہیں مگر ناقص تربیت ان کی شخصیت کو کھوکھلا کر دیتی ہے وہ باہر سے کتنے ہی مکمل کیوں نہ ہوں ان کا اندر اتنا ہی خالی ہوتا ہے ان کی شخصیت بظاہر مضبوط اور بھرپور دکھائی دیتی ہے مگر ان کی باطنی شخصیت اتنی ہی کھوکھلی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے۔
بشکریہ لاہور اپ ڈیٹس
متعلقہ تحریریں:
بچے کھانے کھانے سے کيوں کتراتے ہيں؟
نوزائیدہ بچوں کی فرسٹ ایڈ